jo allah ko chorkar unko pukare

 

04-602-46-06
جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔نا وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں ،نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے۔اس ارشاد الہی کو تفصیلا یوں سمجھئے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ تین اقسام پر منقسم ہیں ۔ایک، بےروح اور بے عقل مخلوقات۔دوسرے، وہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں۔تیسرے، وہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بے خبر رہنا ظاہر ہی ہے ۔   رہے دوسری قسم کے معبود، جو اللہ کے مقرب انسان تھے،تو ان کے بے خبر رہنے کے دو وجوہ ہیں ۔ایک یہ کے وہ اللہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں براہ راست ان تک نہیں پہنچتی۔دوسرا یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں ، اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچا نے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی ،اور اللہ اپنے نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملے پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان کے بے خبر رہنے کے بھی دو ہی وجوہ ہیں ۔ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں جہاں دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں ، اس لئے کہ یہ خبریں ان کے لئے مسرت کی موجب ہونگی،اور خدا ان ظالموں کو ہرگز خوش نہیں کرنا چاہتا ۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کے دعائے رحمت پہنچا دیتا ہے ،کیونکہ یہ چیزیں ان کے لئے فرحت کی موجب ہیں ،اور اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار اور زجرو توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توبیخ سنوادی گئی،کیونکہ یہ ان کے لیے اذیت کا موجب ہے ۔ لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کا موجب،  یا مجرم کے لئے فرحت کی موجب ہو، وہ ان تک نہیں پہنچائی جاتی ۔

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.