04-589-45-30
خواہش نفس کو خدا
خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی
خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کرگزرے ،خدا نے اسے
حرام کیا ہو ،اور جس کام کو اس کا دل نا چاہیے اسے نہ کرے ،خواہ خدا نے اسے فرض کر
دیا ۔جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود
خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح کی عبادت کر رہا ہو۔پتا نظر اس سے کہ وہ
زبان سے اس کو اپنا الہ اور معبود کہتا ہو۔یا اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو
یا نہ کرتا ہو۔اس لیے کہ ایسی بے چون و چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے
کافی ہے۔ اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں
ہوسکتا کہ۔ اس نے اپنی مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا
ہے ۔اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابرین و مفسرین نے بھی کی ہے۔ابن جریر اس کا مطلب
یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خواہشات نفس کزمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ وہ خواہش
نفس کا نہایت فرمابردار ہے ی۔ جگر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے
۔ اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے۔گویا کہ وہ اس کی بندگی اس طرح
کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے
04-590-45-33
آخرت کا انکار خوہش نفس کی بندگی
آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس
کی بندگی کرنا چاہتے ہیں ۔اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے
ہیں۔پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ ہی
بھٹکتی چلی جاتی ہے۔ اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے
ہیں۔کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں۔کسی کا حق مارنے
میں انہیں تامل نہیں ہوتا کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ
توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے صرف اس لئے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی
احترام ان کے دلوں میں ہے۔جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کرسکتا ہے
وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ
کرتے ہیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے ۔کوئی
کل میں نصیحت ان پر کارگر نہیں ہوتا جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے
لئے مفید ہو سکتی ہے وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی بلکہ وہ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں
اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں اور ان کے دل و دماغ کسی
اچھی فکر کے بجائے شب و روز اپنے اغراض و خواہشات پر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی
ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار
انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے ۔آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ
سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں۔ بلکہ ہمیں خدا کے حضور
اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے
سے بڑا عالم بھی ہو تو جانوروں سے بدتر رویہ اختیار کئے بغیر نہیں رہتا ۔
khahish e nafs ko khuda,Inkar e akhirat
0
September 21, 2022
