03-226-22-66
جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز
قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ نے کبھی حرام وہ ناپاک مال کو اپنا رزق
نہیں فرمایا ہے ۔اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائی ان کو عطا کی ہے ان میں سے خرچ کرتے ہیں ۔پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا ،رشتہ داروں اور ہمسا یو اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا ،رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لینا ،اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے ۔بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریاکارانہ حج وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن "انفاق" قرار دیتا ہو ، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے ۔اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے ،کے آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے ،اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے ،اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چور آئے ،تو اس صورت میں اگر کوئی آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے ،مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام "انفاق" نہیں ہے۔ وہ اس کو "بخل" اور شح نفس کہتا یے
