Seerat ka paigam

 سیرتؐ کا پیغام



مجھے دعوت دی گئی ہے کہ میں اپ کے اس اجتماع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پیغام پر کچھ عرض کروں۔ اس مضمون پر اگر منطقی ترتیب کے ساتھ کلام کیا جائے تو سب سے پہلے ہمارے سامنے یہ سوال اتا ہے کہ ایک نبی کی سیرت ہی کا پیغام کیوں؟ کسی اور کا پیغام کیوں نہیں؟ اور انبیاء میں سے صرف سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت کا پیغام کیوں؟ دوسرے انبیاء اور پیشوایانیں مذاہب کی سیرتوں کا پیغام کیوں نہیں؟ اس سوال پر اغاز ہی میں بحث کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا ذہن اس بات پر پوری طرح مطمئن ہو جائے کہ درحقیقت ہم قدیم اور جدید زمانوں کے کسی رہنما کی سیرت میں نہیں بلکہ ایک نبی کی سیرت ہی میں ہدایت پا سکتے ہیں، اور کسی دوسرے نبی یا پیشوائے مذہب کی زندگی میں نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ہم کو وہ صحیح اور مکمل ہدایت مل سکتی ہے جس کے ہم فی الواقع محتاج ہیں۔


خدائی ہدایت کی ضرورت

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ علم کا سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے، جس نے اس کائنات کو بنایا اور اس میں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس کے سوا کائنات کی حقیقتوں کا اور خود انسانی فطرت اور اس کی حقیقتوں کا علم اور کس کو ہو سکتا ہے؟ خالق ہی تو اپنی مخلوق کو جان سکتا ہے۔ مخلوق اگر کچھ جانے گا تو خالق کے بتانے ہی سے جانے گا۔ اس کے پاس خود اپنا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے وہ حقیقت کو جان سکے۔ اس معاملے میں دو قسم کی چیزوں کا فرق اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے تاکہ خلط مبحث نہ ہونے پائے۔ 


ایک قسم کی چیزیں وہ ہیں جنہیں اپ اپنے حواس سے محسوس کر سکتے ہیں اور ان کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات کو فکر و استدلال اور مشاہدات و تجربات کی مدد سے مرتب کر کے نئے نئے نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس نوعیت کی چیزوں کے بارے میں عالم بالا سے کوئی تعلیم انے کی ضرورت نہیں۔ یہ اپ کی اپنی تلاش و جستجو غور و فکر اور تحقیق و اکتشاف کا دائرہ ہے۔ اسے اپ پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے گرد و پیش کی دنیا میں پائی جانے والی اشیاء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں، ان میں کام کرنے والی قوتوں کو معلوم کریں، ان کے اندر کار فرما قوانین کو سمجھیں اور ترقی کی راہ میں اگے بڑھتے چلے جائیں۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی اپ کے خالق نے اپ کا ساتھ چھوڑ نہیں دیا ہے۔ وہ تاریخ کے دوران میں بالکل غیر محسوس طریقے سے ایک تدریج کے ساتھ اپنی پیدا کی ہوئی دنیا سے اپ کا تعارف کراتا رہا ہے، واقفیت کے نئے نئے دروازے اپ پر کھولتا رہا ہے اور وقتا فوقتا ایک الہامی طریقے سے کسی نہ کسی انسان کو ایسی بات سجھاتا رہا ہے، جس سے وہ کوئی نئی چیز ایجاد، یا کوئی نیا قانون دریافت کر سکا۔ لیکن بہرحال یہ ہے انسانی علم ہی کا دائرہ، جس کے لیے کسی نبی اور کسی کتاب کی حاجت نہیں ہے اور اس دائرے میں جو معلومات مطلوب ہیں انہیں حاصل کرنے کے ذرائع انسان کو دے دیے گئے ہیں۔ 


دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جو ہمارے حواس کی پہنچ سے بالاتر ہیں، جن کا ادراک ہم کسی طرح نہیں کر سکتے۔ جنہیں نہ ہم تول سکتے ہیں، نہ ناپ سکتے ہیں، نہ اپنے علم کے ذریعے میں سے کوئی ذریعہ استعمال کرکے ان کو معلوم کر سکتے ہیں۔ فلسفی اور سائنس دان ان کے متعلق اگر کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو وہ محض قیاس پر مبنی ہوتی ہے، جسے علم نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اخری حقیقتیں الٹیمیٹ ریلٹیز ہیں جن کے بارے میں استدلالی نظریات کو خود وہ لوگ بھی یقینی قرار نہیں دے سکتے، جنہوں نے ان نظریات کو پیش کیا ہے اور اگر وہ اپنے علم کیے حدود کو جانتے ہوں تو وہ ان پر نہ خود ایمان لا سکتے ہیں نہ کسی کو ایمان لانے کی دعوت دے سکتے ہیں۔


انبیاء کی پیروی کی ضرورت 


اس دائرے میں علم اگر پہنچتا ہے تو صرف اللہ تعالی کی ہدایت سے پہنچتا ہے کیونکہ وہی حقائق کا جاننے والا ہے۔ اور جس ذریعے سے اللہ تعالی انسان کو یہ علم دیتا ہے وہ وہی ہے جو صرف انبیاء پر نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے اج تک کبھی یہ نہیں کیا کہ ایک کتاب چھاپ کر ہر انسان کے ہاتھ میں تھما دی ہو اور اس سے کہا ہو کہ اسے پڑھ کر خود معلوم کر لے کہ تیری اور کائنات کی حقیقت کیا ہے اور اس حقیقت کے لحاظ سے دنیا میں تیرا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس علم کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے اس نے ہمیشہ انبیاء ہی کو ذریعہ بنایا ہے تاکہ وہ صرف اس علم کی تعلیم ہی دے کر نہ رہ جائیں بلکہ اسے سمجھائیں بھی، اس کے مطابق عمل بھی کر کے دکھائیں، اس کے خلاف چلنے والوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش بھی کریں اور اسے قبول کرنے والوں کو ایک ایسے معاشرے کی شکل میں منظم بھی کر دیں، جس کی زندگی کا ہر شعبہ اس علم کا عملی مظہر ہو۔


اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم رہنمائی کے لیے صرف ایک نبی کی سیرت ہی کے محتاج ہیں کوئی غیر نبی اگر نبی کا پیرو نہ ہو تو خواہ وہ کیسا ہی متجر عالم اور دانا و فرزانہ ہو ہمارا رہنما نہی ہوسکتا، کیونکہ اس کے پاس حقیقت کا علم نہیں ہے اور جسے حقیقت کا علم نہ ہو وہ ہمیں کوئی صحیح و برحق نظام حیات نہیں دے سکتا۔


محمدﷺ کے سوا دوسرے انبیاء سے ہدایت نہ ملنے کی وجہ


اب اس سوال کو لیجیے کہ جن بزرگوں کو ہم انبیاء کی حیثیت سے جانتے ہیں اور جن پیشوایانِ مذاہب کے بارے میں گمان کیا جا سکتا ہے کہ شاید وہ نبی ہوں، ان میں سے ہم صرف ایک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت سے کیوں پیغام حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا یہ کسی قسم کے تعصب کی وجہ سے ہے یا اس کی کوئی معقول وجہ ہے؟ 


میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی ایک نہایت معقول وجہ ہے۔ جن انبیاء کا ذکر قران میں کیا گیا ہے ان کو اگرچہ ہم یقینی طور پر نبی مانتے اور جانتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کی تعلیم اور سیرت بھی ہم تک کسی قابل اعتماد اور مستند ذریعے سے نہیں پہنچی ہے کہ ہم اس کی پیروی کر سکیں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یوسف، حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہم السلام بلاشبہ نبی تھے اور ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر ان پر نازل ہونے والی کوئی کتاب اج محفوظ شکل میں موجود نہیں ہے کہ اس سے ہم ہدایت حاصل کر سکیں اور ان میں سے کسی کی زندگی کے حالات بھی ایسے محفوظ اور معتبر طریقے سے ہم تک نہیں پہنچے ہیں کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کو اپنا رہنما بنا سکیں۔ اگر ان سارے انبیاء کی تعلیمات اور سیرت پر کوئی شخص کچھ لکھنا چاہے تو چند صفحات سے زیادہ نہیں لکھ سکتا اور وہ بھی صرف قران کی مدد سے۔ کیونکہ قران مجید کے سوا ان کے بارے میں کوئی مستند مواد موجود نہیں ہے۔



دینِ یہود کی کتابوں اور انبیاء کا حال 


حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے بعد انے والے انبیاء کے حالات اور ان کی تعلیمات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بائبل کے عہد عتیق اولڈ ٹیسٹامنٹ میں ہیں لیکن تاریخ اعتبار سے ذرا بائبل کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ اصل تورات جو حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، چھٹی صدی قبل مسیح میں بیت المقدس کی تباہی کے وقت ضائع ہو چکی تھی اور اسی کے ساتھ دوسرے ان انبیاء کے صحیفے بھی ضائع ہو گئے تھے جو اس زمانے سے پہلے ہو گزرے تھے۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں جب بنی اسرائیل بابل کے اسیری سے رہا ہو کر فلسطین پہنچے تو حضرت عزیر EZRA نے چند دوسرے بزرگوں کی مدد سے حضرت موسی علیہ السلام کی سیرت اور بنی اسرائیل کی تاریخ مرتب کی اور اسے میں تورات کی وہ ایات بھی حسب موقع درج کر دیں جو انہیں اور ان کے مددگاروں کو دستیاب ہو سکیں۔ اس کے بعد چوتھی صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی قبل مسیح تک مختلف لوگوں نے (جو نامعلوم کون تھے) ان انبیاء کے صحیفے (نہ معلوم کن ذرائع سے) تصنیف کر لیے جو ان سے کئی صدی قبل گزر چکے تھے۔ مثلاً ٣٠٠ قبلِ مسیح میں حضرت یونسؑ کے نام سے ایک کتاب کسی شخص نے لکھ کر بائیبل میں درج کردی، حالانکہ وہ اٹھویں صدی قبل مسیح کے نبی تھے۔ زبور (Psalms) حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے 500 برس بعد لکھی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے علاوہ تقریبا ایک سو دوسرے شاعروں کی نظمیں بھی شامل کر دی گئیں، جو جو معلوم نہیں کن ذرائع سے زبور مرتب کرنے والوں کو پہنچی تھیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات 933 قبل مسیح میں ہوئی اور امثالِ سلیمان (Proverbs) 250 قبل مسیح میں لکھی گئی اور اس میں دوسرے بہت سے حکماء کے اقوال بھی شامل کر دیے گئے۔


غرض، بائبل کے کسی کتاب کی سند بھی ان انبیاء تک نہیں پہنچتی جن کی طرف وہ منسوب ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابرانی بائبل کی یہ کتابیں بھی 70 عیسوی میں بیت المقدس کی دوسری تباہی کے وقت ضائع ہو گئیں اور ان کا صرف یونانی ترجمہ باقی رہ گیا جو 258 قبل مسیح سے پہلی صدی قبل مسیح تک کیا گیا تھا۔ ابرانی بائبل کو دوسری صدی عیسوی میں یہودی علماء نے ان مسودات کی مدد سے مرتب کیا جو بچے رہ گئے تھے۔ اس کا قدیم ترین نسخہ جو اب پایا جاتا ہے 916 عیسوی کا لکھا ہوا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی عبرانی نسخہ اب موجود نہیں ہے۔ بحیرہ مردار ( Dead Sea) کے قریب غار قمران میں جو عبرانی خریطے (Scrolls)ملے ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح کے لکھے ہوئے ہیں اور ان میں بائبل کے صرف چند منتشر اجزاء ہی پائے جاتے ہیں۔ بائبل کی پہلی پانچ کتابوں کا مجموعہ سامریوں (Samaritans)کے ہاں رائج ہے۔ اس کا قدیم ترین نسخہ 11ویں صدی عیسوی کا لکھا ہوا ہے۔ یونانی ترجمہ جو تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں کیا گیا تھا وہ بے شمار غلطیوں سے لبریز تھا اور اس ترجمے سے لاطینی زبان کا ترجمہ دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں ہوا۔ حضرت موسی اور بعد کی انبیاء علیہ السلام بنی اسرائیل کے حالات اور تعلیمات کے بارے میں اس مواد کو اخر کس معیار کے لحاظ سے مستند(Authentic) کہا جا سکتا ہے؟ 


اس کے علاوہ یہودیوں میں کچھ سینہ بسینہ روایات بھی پائی جاتی تھیں جنہیں زبانی قانون(Oral Law) کہا جاتا تھا۔ یہ تیرہ چودہ سو برس تک غیر مکتوب رہیں۔  دوسری صدی عیسوی کے اخر اور تیسری صدی کے اغاز میں ربی یہودہ ابن شمون نے ان کو مشناہ کے نام سے تحریری شکل دی۔ فلسطینی علماء یہود نے اس کی شرحیں حلقہ (Halakah) کے نام سے اور بابلی علماء نے حقداہ (Haqqadah) (ہگاّدہ Haggadah)

کے نام سے تیسری اور پانچویں صدی میں لکھیں اور انہی تین کتابوں کا مجموعات تلمود کہلاتا ہے۔ ان کی کسی روایت کی کوئی سند نہیں ہے جن سے معلوم ہو سکے کہ یہ کن لوگوں سے کن لوگوں تک پہنچی۔ 


حضرت عیسی علیہ السلام اور دین نصاری کی کتابوں کا حال 



کچھ ایسا ہی حال حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت اور تعلیمات کا ہے۔ اصل انجیل جو خدا کی طرف سے وحی کے ذریعے ان پر نازل ہوئی تھی اسے انہوں نے زبانی ہی لوگوں کو سنایا اور ان کے شاگردوں نے بھی زبانی ہی اسے دوسروں تک اس طرح پہنچایا کہ آں جناب کے حالات اور انجیل کی ایات سب کو خلط ملط کر دیا۔ ان میں سے کوئی چیز بھی مسیحؑ کے زمانے میں یا ان کے بعد لکھی نہیں گئی۔ لکھنے کا کام ان عیسائیوں نے کیا جن کی زبان یونانی تھی، حالانکہ حضرت عیسی کی زبان سریانی(Syriac) یا آرامی (Aramic) تھی اور ان کے شاگرد بھی یہی زبان بولتے تھے۔ یونانی زبان بولنے والے بہت سے مصنفین نے ان روایات کو آرامی زبان میں سنا اور یونانی میں لکھا۔ ان مصنفین کی لکھی ہوئی کتابوں میں سے کوئی بھی 70 عیسوی سے پہلے کی نہیں ہے اور ان میں سے کسی نے بھی کسی واقعہ یا حضرت عیسی علیہ السلام کے کسی قول کی سند نہیں بیان کی، جس سے معلوم ہوتا کہ انہوں نے کون سی بات کس سے سنی تھی۔ پھر اس کی لکھی ہوئی کتابیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ بائبل کے نئے عہد نامے(New Testament) کے ہزاروں یونانی نسخے جمع کیے گئے مگر ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی عیسوی سے پہلے کا نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر گیارہویں سے چودویں صدی تک کے ہیں۔ مصر میں پاپیرس پر لکھے ہوئے جو منتشر اجزاء ملے ہیں ان میں سے بھی کوئی تیسری صدی سے قدیم تر نہی ہے۔  یونانی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کس نے کیا، کب اور کہاں کیا؟ اس کے متعلق کچھ نہیں معلوم، چوتھی صدی میں پوپ کے حکم سے اس پر نظر ثانی کا کام کیا گیا اور پھر سولہویں صدی میں اسے چھوڑ کر یونانی سے لاطینی میں ایک نیا ترجمہ کر دیا گیا۔ یونانی سے سریانی زبان میں چاروں انجیلوں کا ترجمہ غالبا 200 عیسوی میں ہوا تھا۔ مگر اس کا بھی قدیم ترین نسخہ جو اب پایا جاتا ہے چوتھی صدی کا لکھا ہوا ہے اور پانچویں صدی کا جو قلمی نسخہ ملا ہے وہ اس سے کافی مختلف ہے۔ سریانی سے جو عربی ترجمے کیے گئے ان میں سے بھی کوئی ترجمہ اٹھویں صدی سے پہلے کا نہیں ہے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ 70 کے قریب انجیلیں لکھی گئی تھی مگر ان میں سے صرف چار کو پیشوایا نے دین مسیح نے قبول کیا اور باقی سب کو رد کر دیا۔ کچھ نہیں معلوم کہ قبول کیا تو کیوں اور رد کیا تو کیوں؟ اس مواد کی بنا پر حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت اور ان کی تعلیمات کو کسی درجے میں بھی مستند مانا جا سکتا ہے؟ 


زرتشتی مزہب کا حال



دوسرے پیشوایانِ مذہب کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ مثلا زرتشت کو لیجئے جس کا صحیح زمانہ پیدائش بھی اب ٹھیک معلوم نہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سکندر کی فتح ایران سے ڈھائی سو سال پہلے اس کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی مسیحؑ سے ساڑھےپانچ سو سال قبل اس کی کتاب اوستا اپنے اصل زبان میں اب ناپید ہے اور وہ زبان بھی مردہ ہو چکی ہے، جس میں وہ لکھی یا زبانی بیان کی گئی تھی۔ نویں صدی عیسوی میں اس کے بعض اجزاء کا ترجمہ نو جلدوں میں تشریح کے ساتھ کیا گیا تھا۔ مگر اس کی دو پہلی جلدیں ضائع ہو گئیں اور اب اس کا جو قدیم ترین نسخہ پایا جاتا ہے وہ 13 ویں صدی کے وسط کا لکھا ہوا ہے۔ یہ تو ہے زرتشت کی پیش کردہ کتاب کا حال۔ رہا خود اس کی سیرت کا معاملہ تو اس کے متعلق ہماری معلومات اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ 40 سال کی عمر میں اس نے تبلیغ شروع کی۔ دو سال بعد بادشاہ "گشتاسپ" نے اس کی پیروی اختیار کر لی اور اس کا مذہب سرکاری مذہب بن گیا۔ 77 سال وہ زندہ رہا اور اس کی موت پر جتنا زمانہ گزرتا گیا، اس کی زندگی عجیب و غریب انسانوں کا مجموعہ بنتی چلی گئی جن میں سے کسی کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے. 


بدھ مذہب کا حال 



دنیا کی مشہور ترین مذہبی شخصیتوں میں سے ایک بودھ بھی تھا۔ زرتشت کے طرح اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ شاید وہ نبی ہو۔ مگر اس نے سرے سے کوئی کتاب پیش ہی نہیں کی۔ نہ اس کے پیروں نے کبھی یہ دعوی کیا کہ وہ کوئی کتاب لایا تھا۔ اس کی وفات کے سو سال بعد اس کے اقوال اور حالات کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور صدیوں تک چلتا رہا۔ مگر اس طرح کی جتنی کتابیں بودھ مذہب کی اصل کتابیں سمجھی جاتی ہیں ان میں سے کسی کے اندر بھی کوئی سند درج نہیں ہے، جس سے معلوم ہو کہ کس ذریعے سے ان احوال و اقوال اور تعلیمات کے درج کرنے والوں کو بودھ کے حالات اور اس کے اقوال پہنچے تھے۔ 


اس سے معلوم ہوا کہ اگر ہم دوسرے انبیاء اور مذہبی پیشواؤں کی طرح رجوع کریں گی تو ان کے بارے میں کوئی مستند ذریعہ ایسا نہیں ہے، جس سے ہم ان کی تعلیمات اور ان کی زندگیوں سے اطمینان اور یقین کے ساتھ رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ہم کسی ایسے نبی کی طرف رجوع کریں، جس نے کوئی قابل اعتماد اور تحریف و امیزش سے پاک کتاب چھوڑی ہو اور جس کے مفصل حالات و اقوال اور اعمال معتبر ذرائع سے ہم تک پہنچے ہوں تاکہ ہم ان سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ ایسی شخصیت پوری دنیا کی تاریخ میں صرف ایک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے۔


قرآن کا پایہ استناد 



انہوں نے ایک کتاب (قران مجید) اس صریح دعوے کے ساتھ پیش کی کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔ اس کتاب کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو یقینی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی امیزش نہیں ہوئی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کوئی قول بھی اس میں شامل نہیں ہے۔ بلکہ اپ کے اقوال کو اس سے بالکل الگ رکھا گیا ہے۔ بائبل کی طرح اپ کی زندگی کے حالات اور عربوں کی تاریخ اور زمانہ نزول قران میں پیش انے والے واقعات کو اس میں کلام الہی کے ساتھ خلط ملط نہیں کر دیا گیا ہے۔ یہ خالص کلام اللہ ہے(Word Of God) اس کے اندر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا ایک لفظ بھی شامل نہیں ہوا ہے. اس کے الفاظ میں سے ایک لفظ بھی کم نہیں ہوا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جوں کا توں یہ ہمارے زمانے تک منتقل ہوا ہے۔ 


یہ کتاب جس وقت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونی شروع ہوئی تھی، اسی وقت سے آپؐ نے اسے لکھوانا شروع کر دیا تھا۔ جب کوئی وحی آتی اسی وقت آپؐ اپنے کسی کاتب کو بلاتے اور اسے لکھوا دیتے تھے۔ لکھنے کے بعد وہ اپؐ کو سنایا جاتا تھا اور جب اپؐ اطمینان کر لیتے تھے کہ کاتب نے اسے صحیح لکھا ہے تب اپؐ اسے ایک محفوظ جگہ رکھ دیتے تھے۔ ہر نازل شدہ وحی کے متعلق اپؐ کاتب کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ وہ اسے کس سورہ میں کس ایت سے پہلے اور کس کے بعد درج کیا جائے۔ اس طرح اپ قران مجید کو ترتیب بھی دیتے رہے تھے یہاں تک کہ وہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ 


پھر نماز کے متعلق اغاز اسلام ہی سے یہ ہدایت تھی کہ اس میں قران مجید لازما پڑھا جائے۔ اس لیے صحابہ کرام اس کے نزول کے ساتھ ساتھ اس کو یاد کرتے جاتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اسے پورا یاد کر لیا اور ان میں سے بہت زیادہ بڑی تعداد ایسے اصحاب کی تھی جنہوں نے کمی کم و بیش اس کے مختلف حصے اپنے حافظے میں محفوظ کر لیے تھے۔ ان کے علاوہ متعدد صحابہ جو پڑھے لکھے تھے قران مجید کے مختلف حصوں کو بطور خود لکھ بھی رہے تھے۔ اس طرح قران مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں چار طریقوں سے محفوظ ہو چکا تھا۔ 


١۔  آپؐ نے کاتبینِ وحی سے اس کو اول تا آخر لکھوایا۔  

٢۔ بہت سے صحابہؓ نے پورا کا پورا قرآن لفظ بہ لفظ یاد کرلیا۔ 


٣۔ صحابہ کرام میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے قرانِ مجید کا کوئی نہ کوئی حصہ، تھوڑا یا بہت یاد نہ کرلیا ہو، کیوں کہ اسے نماز میں پڑھنا ضروری تھا اور صحابہ کی تعداد کا اندازہ اس سے کرلیجئے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ آخری حج میں ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ شریک تھے۔ 


۴۔ پڑھے لکھے صحابہ کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اپنے طور پر قران مجید کو لکھ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کر اس کی صحت کا اطمینان بھی کر لیا تھا۔ 


پس یہ ایک ناقابل انکار  تاریخی حقیقت ہے کہ اج جو قران ہمارے پاس موجود ہے یہ لفظ بہ لفظ وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام اللہ کی حیثیت سے پیش فرمایا تھا۔ حضورؐ کی وفات کے بعد اپ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تمام حافظوں اور تحریری نوشتوں کو جمع کر کے اس کا ایک مکمل نسخہ کتاب صورت میں لکھوا لیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اسی کی نقلیں سرکاری طور پر دنیا اسلام کے مرکزی مقامات کو بھیجی گئی۔ ان میں سے دو نقلیں اج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ایک استنبول میں اور دوسری تاشقند میں۔ جس کا جی چاہے قران مجید کا کوئی مطبوعہ نسخہ لے کر ان سے ملا لے۔ کوئی فرق وہ نہ پائے گا۔ اور فرق ہو کیسے سکتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر اج تک ہر پشت Generation میں لاکھوں اور کروڑوں حافظ موجود رہے ہیں۔ ایک لفظ بھی اگر کوئی شخص بدلے تو یہ حفاظ اس کی غلطی پکڑ لیں گے۔ 


پچھلی صدی کے اخر میں جرمنی کی میونخ یونیورسٹی کے ایک انسٹیٹیوٹ نے دنیا اسلام کے مختلف حصوں سے ہر زمانے کے لکھے ہوئے قران مجید کے قلمی اور مطبوعہ 42 ہزار نسخے جمع کیے تھے۔ پچاس سال تک ان پر تحقیقی کام کیا گیا۔ اخر میں جو رپورٹ پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ ان نسخوں میں کتابت کی غلطیوں کے سوا کوئی فرق نہیں ہے حالانکہ پہلی صدی ہجری سے چودہ ویں صدی تک کے نسخے تھے اور دنیا کے ہر حصے سے فراہم کیے گئے تھے۔ افسوس ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی پر بمباری کی گئی تو وہ انسٹیٹیوٹ تباہ ہو گیا لیکن اس کی تحقیقات کے نتائج دنیا سے ناپید نہیں ہوئے۔ 


ایک اور بات قران مجید کے متعلق یہ بھی نگاہ میں رکھیے کہ جس زبان میں یہ نازل ہوا تھا وہ ایک زندہ زبان ہے۔ عراق سے مراکش تک تقریبا 12 کروڑ انسان اج بھی اسے مادری زبان کی حیثیت سے بولتے ہیں اور غیر عرب دنیا میں بھی لاکھوں ادمی سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ عربی زبان کی گرامر اس کی لغت اس کے الفاظ کے تلفظ اور اس کے محاورے 1400 برس سے جوں کے توں رائج ہیں۔ اج ہر عربی دان اسے پڑھ کر اسی طرح سمجھ سکتا ہے جس طرح 1400 برس پہلے کے عرب سمجھتے تھے۔


یہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم خصوصیت جو ان کے سوا کسی نبی اور کسی پیشوائے مذہب کو حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے جو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی وہ اپنے اصل زبان میں اپنی اصل الفاظ کے ساتھ بلا تغیر اور تبدل موجود ہے۔


سیرت و سنت رسولؐ کا پایہ استناد



اب دوسری خصوصیت کو دیکھیے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء اور پیشوایاں نے مذاہب میں اکتا ہیں۔ وہ یہ کہ اپ کی لائی ہوئی کتاب کی طرح اپ کی سیرت بھی محفوظ ہے، جس سے ہم زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ بچپن سے لے کر اخری سانس تک جتنے لوگوں نے اپ کو دیکھا، اپ کے حالات زندگی دیکھے، اپ کے اقوال سنے،  اپ کی تقریریں سنیں،  اپ کو کسی چیز کا حکم دیتے سنا یا کسی چیز سے منع کرتے سنا، ان کی ایک عظیم تعداد نے سب کچھ یاد کر رکھا اور بعد کی نسلوں تک اسے پہنچایا۔ 



بعض محققین کے نزدیک ایسے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچتی ہے جنہوں نے انکھوں دیکھے اور کانوں سنے ہوئے واقعات بعد کی نسل تک منتقل کیے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض احکام خود لکھوا کر بھی بعض لوگوں کو دیے یا بھیجے تھے جو بعد کے لوگوں کو ملے۔ صحابہ میں سے کم از کم چھ اصحاب ایسے تھے جنہوں نے اپ کی احادیث لکھ کر اپ کو سنا دی تھیں تاکہ ان میں کوئی غلطی نہ رہ جائے۔ یہ تحریریں بھی بعد میں انے والوں کو ملیں۔  حضورؐ کی وفات کے بعد کم از کم 50 صحابہ نے اپ کے حالات واقعات اور اقوال تحریری صورت میں جمع کیے اور یہ ذخیرہ علم بھی ان لوگوں تک پہنچا جنہوں نے بعد میں احادیث کو جمع اور مرتب کرنے کی خدمت انجام دی۔ پھر جن صحابہؓ نے سیرت کی معلومات زبانی روایات کیں ان کی تعداد جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، بعض محققین کے نزدیک ایک لاکھ تک پہنچتی ہے اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ اخری حج جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا، جسے حجت الوداع کہا جاتا ہے، اس میں ایک لاکھ 40 ہزار ادمی موجود تھے۔ اتنے ادمیوں نے اپ کو حج کرتے ہوئے دیکھا۔ اپ سے حج کا طریقہ سیکھا۔ وہ تقریریں سنیں جو حجۃ الوداع کے موقع پر اپ نے کیں۔  کیسے ممکن ہے کہ اتنے لوگ جب ایسے موقع پر اپ کے ساتھ حج میں شریک ہونے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں واپس پہنچے ہوں گے تو وہاں ان کے عزیزوں، دوستوں، اور ہم وطنوں نے ان سے اس سفر کے حالات نہ پوچھے ہوں اور حج کے احکام دریافت نہ کیے ہوں۔ اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم شخصیت کے اس دنیا سے گزرجانے کے بعد لوگ کس اشتیاق کے ساتھ آپ کے احوال واقوال اور احکام و ہدایات ان لوگوں سے پوچھتے ہوں گے جنہوں نے آپ کو دیکھا تھا اور آپ کے ارشادات سنے تھے۔ 


صحابہ کرام سے جو روایات بعد کی نسلوں تک پہنچی تھیں ان کے بارے میں ابتدا ہی سے یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا کہ جو شخص بھی رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کہتا اس کو یہ بتانا پڑتا تھا کہ اس نے وہ بات کس سے سنی ہے اور اوپر سلسلہ بہ سلسلہ کون کس سے یہ بات سنتا اور اگے بیان کرتا رہا ہے۔ اس طرح رسول اللہﷺ تک پوری کڑیاں دیکھی جاتی تھیں تاکہ یہ اطمینان کر لیا جائے کہ وہ صحیح طور پر حضورؐ سے منقول ہوئی ہے۔ اگر روایت کی پوری کڑیاں نہ ملتی تھیں تو اس کی صحت مشتبہ ہو جاتی تھی۔ اگر کڑیاں نبی کریمﷺ تک پہنچ جاتیں لیکن بیچ میں کوئی راوی ناقابل اعتماد ہوتا تو ایسی روایت بھی قبول نہ کی جاتی تھی۔ اپ ذرا غور کریں تو اپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا کے کسی دوسرے انسان کے حالات اس طرح سے مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف نبی کریمﷺ کو حاصل ہے کہ اپ کے بارے میں کوئی بات بھی سند کے بغیر تسلیم نہیں کی گئی اور سند میں صرف یہی نہیں دیکھا گیا کہ ایک حدیث کا سلسلہ روایت رسول اللہﷺ تک پہنچتا ہے یا نہیں، بلکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اس سلسلے کے تمام راوی بھروسے کے قابل ہیں یا نہیں۔ اس غرض کے لیے راویوں کے حالات کی بھی جانچ پڑتال کی گئیں اور اس پر مفصل کتابیں لکھ دی گئیں جن سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون قابل اعتماد تھا اور کون نہ تھا۔ کس کی سیرت و کردار کا کیا حال تھا۔ کس کا حافظہ ٹھیک تھا اور کس کا ٹھیک نہ تھا۔ کون اس شخص سے ملا تھا جس سے اس نے روایت نقل کی ہے اور کون اس سے ملاقات کے بغیر ہی اس کا نام لے کر روایت بیان کر رہا ہے، اس طرح اتنے بڑے پیمانے پر راویوں کے متعلق معلومات جمع کی گئی ہیں کہ اج بھی ہم ایک ایک حدیث کے متعلق یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ قابل اعتماد ذرائع سے ائی ہے یا ناقابل اعتماد ذرائع سے۔ کیا انسانی تاریخ میں کوئی دوسرا شخص ایسا پایا جاتا ہے جس کے حالات زندگی اس قدر مستند طریقے سے منقول ہوئے ہوں؟ اور کیا اس کی کوئی مثال ملتی ہے کہ ایک شخص کے حالات کی تحقیق کے لیے ان ہزارہا ادمیوں کی حالات پر کتابیں لکھ دی گئی ہوں جنہوں نے اس ایک شخصیت کے متعلق کوئی روایت بیان کی ہو؟ موجودہ دور کے عیسائی اور یہودی علماء، احادیث کی صحت مشتبہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا جو زور صرف کر رہے ہیں اس کی اصل وجہ یہ حسد ہے کہ ان کے دین کی کتابوں اور ان کے پیشوایانِ دین کے حالات کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے۔ اسی جلن کے باعث انہوں نے اسلام اور قران اور محمدﷺ پر تنقید کے معاملے میں علمی دیانتIntellectual Honesty کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ 


حضورؐ کی زندگی کا ہر پہلو معلوم وہ معروف ہے 


سیرت رسول اکرمؐ کی صرف یہی ایک خصوصیت نہیں ہے کہ وہ ہمیں نہایت مستند ذرائع سے پہنچی ہے، بلکہ اس کی یہ بھی امتیازی خصوصیت ہے کہ اس میں اپ کی زندگی کے ہر پہلو کی اتنی تفصیلات ملتی ہیں جو تاریخ کے کسی دوسرے شخص کے بارے میں نہیں ملتیں۔ اپ کا خاندان کیسا تھا۔ اپ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کیسی تھی۔ اپ کو نبوت کس طرح ملی اپ پر وحی کیسے نازل ہوتی تھی۔ اپ نے اسلام کی دعوت کس طریقے سے پھیلائی۔ مخالفتوں اور مزاحمتوں کا مقابلہ کس طرح کیا۔ اپنے ساتھیوں کی تربیت کیسے کی۔ اپنے گھر میں اپ کس طرح رہتے تھے۔ اپنی بیوی اور بچوں سے اپ کا برتاؤ کیسا تھا۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں سے اپ کا معاملہ کیسا تھا۔ کس اخلاق کی تعلیم اپ دیتے تھے۔ اور اپ کا اپنا اخلاق کیسا تھا۔ کس چیز کا اپ نے حکم دیا۔ کس کام سے اپ نے منع کیا۔ کس کام کو اپ نے ہوتے دیکھا اور منع نہ کیا اور کس چیز کو اپ نے ہوتے دیکھا اور منع فرمایا۔ یہ سب کچھ ذرا ذرا سی تفصیلات کے ساتھ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ اپ ایک فوجی جنرل بھی تھے اور اپ کی قیادت میں جتنی لڑائیاں ہوئیں ان سب کا مفصل حال ہمیں ملتا ہے۔ اپ ایک حاکم بھی تھے اور اپ کی حکومت کے تمام حالات ہمیں ملتے ہیں۔ اپ ایک جج بھی تھے اور اپ کے سامنے پیش ہونے والے مقدمات کی پوری پوری رودادیں ملتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس مقدمے میں اپ نے کیا فیصلہ فرمایا۔ اپ بازاروں میں بھی نکلتے تھے اور دیکھتے تھے کہ لوگ خرید و فروخت کے معاملات کس طرح کرتے ہیں۔ جس کام کو غلط ہوتے ہوئے دیکھتے اس سے منع فرماتے تھے اور جو کام صحیح ہوتے دیکھتے اس کی توثیق فرماتے تھے۔ غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اپ نے تفصیلی ہدایات نہ دی ہوں۔ 


یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بےجا تعصب کے بغیر پورے علم و یقین کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ تمام انبیاء اور پیشوایانِ مذاہب میں سے صرف ایک محمد رسول اللہﷺ ہی وہ ہستی ہیں جن کی طرف نوع انسانی، ہدایت و رہنمائی کے لیے رجوع کر سکتی ہے۔ کیونکہ اپ کی پیش کی ہوئی کتاب اپنے اصل الفاظ میں محفوظ ہے اور اپ کی سیرت ان تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ جو ہدایت کے لیے درکار ہیں نہایت مستند و معتبر ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں۔ 


اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اپ کی سیرتِ پاک ہمیں کیا پیغام اور کیا ہدایات دیتی ہے۔


حضورؐ کا پیغام تمام انسانوں کے لیے ہے  



اولین چیز جو ہمیں اپ کی دعوت میں نظر اتی ہے وہ یہ ہے کہ اپ رنگ و نسل اور زبان و وطن کے سارے امتیازات کو نظر انداز کر کے انسان کو بحیثیت انسان مخاطب کرتے ہیں اور چند اصول پیش کرتے ہیں جو تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے ہیں۔ ان اصولوں کو جو بھی مان لے وہ مسلمان ہے اور ایک عالمگیر امت مسلمہ کا فرد ہے۔ خواہ وہ کالا ہو یا گورا، مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب، عربی ہو یا عجمی۔ جہاں بھی کوئی انسان ہے، جس ملک یا قوم یا نسل میں بھی وہ پیدا ہوا ہے، جو زبان بھی وہ بولتا ہے، اور جو رنگ بھی اس کی کھال کا ہے، وہ محمد رسول اللہ کی دعوت کا مخاطب ہے اور اگر وہ اپ کی پیش کردہ اصولوں کو مان لیتا ہے تو بالکل مساوی حقوق کے ساتھ امت مسلمہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ کوئی چھوت چھات، کوئی اونچ نیچ، کوئی نسلی یا طبقاتی امتیاز، کوئی لسانی یا قومی یا جغرافی افتراق، جو عقیدے کی وحدت قائم ہو جانے کے بعد ایک انسان کو دوسرے انسان سے جدا کرتا ہو، اس امت میں نہیں ہے۔ 


رنگ و نسل کے تعصبات کا بہترین علاج 



اپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، جو محمد عربیﷺ کی بدولت انسانیت کو میسر ائی ہے۔ انسان کو سب سے بڑھ کر جس چیز نے تباہ کیا وہ یہی امتیازات ہیں جو انسان اور انسان کے درمیان قائم کیے گئے ہیں۔ کہیں اس کو نجس قرار دیا گیا اور اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا، اس کے وہ حقوق نہیں ہیں جو برہمن کے حقوق ہیں۔ کہیں اس کو فنا کر دینے کے قابل قرار دیا گیا کیونکہ وہ اسٹریلیا اور امریکہ میں اس وقت پیدا ہو گیا تھا جب باہر سے انے والوں کو اس سے زمین خالی کرانے کی ضرورت تھی۔ کہیں اس کو پکڑ کر غلام بنایا گیا اور اس سے جانوروں کی طرح خدمت لی گئی کیونکہ وہ افریقہ میں پیدا ہوا تھا اور اس کا رنگ کالا تھا۔ غرض نوع انسانی کے لیے قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان کے یہ امتیازات قدیم ترین زمانے سے لے کر اس زمانے تک بہت بڑی مصیبت کا ذریعہ بنے رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس بنیاد پر ایک ملک دوسرے ملک پر چڑھ دوڑا ہے، ایک قوم نے دوسری قوم کو لوٹا ہے اور پوری پوری نسلیں تباہ و برباد کر دی گئی ہیں۔ نبیﷺ نے اس مرض کا ایسا علاج فرمایا کہ دشمنان اسلام بھی مان گئے ہیں کہ رنگ نسل اور وطن کے امتیازات کا جس کامیابی سے اسلام نے حل کیا ہے ایسی کامیابی کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔



امریکہ کے افریقی النسل باشندوں کا مشہور لیڈر میلکم اِکس جو ایک زمانے میں گوری نسل کے خلاف کالی نسل کے شدید ترین تعصب کا علمبردار تھا، اسلام قبول کر کے جب حج کے لیے گیا اور اس نے دیکھا کہ مشرق، مغرب، شمال، جنوب ہر طرف سے ہر نسل کے لوگ، ہر رنگ کے لوگ، ہر وطن کے لوگ، ہر زبان بولنے والے لوگ چلے ا رہے ہیں سب نے ایک جیسا احرام کا لباس پہن رکھا ہے۔ سب ایک ہی زبان میں لبیک لبیک کے نعرے لگا رہے ہیں، ایک ساتھ طواف کر رہے ہیں، اور ایک ہی جماعت میں ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تو پکار اٹھا کے رنگ و نسل کے مسئلے کا صحیح حل یہی ہے نہ کہ وہ جو ہم اب تک کرتے رہے ہیں۔ اس مرحوم کو تو ظالموں نے قتل کردیا، مگر اس کی خود نوشت سونح عمری شائع شدہ موجود ہے۔ اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حج سے کیسا گہرا اثر اس نے قبول کیا تھا۔  


یہ حج اسلام کی عبادات میں سے صرف ایک عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص انکھیں کھول کر اسلام کی تعلیمات کو باحیثیت مجموعی دیکھے تو کسی جگہ انگلی رکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیز کسی خاص قوم یا کسی قبیلے یا کسی نسل یا طبقے کے مفاد کے لیے ہے۔ یہ تو پورے کا پورا دین ہی اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لیے ہے اور اس کی نگاہ میں وہ سب انسان یکساں ہیں جو اس کے اصول قبول کر کے اس کی بنائی ہوئی عالمگیر برادری میں شامل ہو جائیں۔ بلکہ یہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں کرتا جو گوروں نے کالوں کے ساتھ کیا، جو سامراجی قوتوں نے اپنی محکوم قوتوں کے ساتھ کیا، جو کمیونسٹ حکومتوں نے اپنے دائرے اقتدار میں رہنے والے غیر کمیونسٹوں کے ساتھ حتی کہ خود اپنی پارٹی کے غیر مرغوب ارکان کے ساتھ کیا۔


اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ انسانیت کی فلاح کے لیے وہ کیا اصول ہیں جو رسول اللہﷺ نے پیش فرمائے ہیں اور ان میں کیا بات ایسی ہے جو نہ صرف فلاحِ انسانیت کا ضامن ہے، بلکہ تمام انسانوں کو ایک وحدت کی لڑی میں پرو کر ایک امت بھی بنا سکتی ہے۔ 


اللہ کی وحدانیت کا وسیع ترین تصور 



ان میں سب سے مقدم اللہ تعالی کی وحدانیت کو تسلیم کرنا ہے۔ صرف اس معنی میں نہیں کہ اللہ ہے، اور محض اس معنی میں بھی نہیں کہ اللہ بس ایک ہے، بلکہ اس معنی میں کہ اس کائنات کا واحد خالق، مالک، مدبر اور حاکم اللہ تعالی ہی ہے۔ کوئی دوسری ہستی پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جس کے پاس حاکمیت کا اقتدار ہو، جس کو حکم دینے اور منع کرنے کا حق ہو، جس کے حرام کرنے سے کوئی چیز حلال ہوسکتی ہے۔  یہ اختیارات اس کے سوا کوئی نہی رکھتا۔ کیونکہ جو خالق اور مالک ہے اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندوں کو اپنی پیدا کردہ دنیا میں جس چیز کی چاہے اجازت دے اور جس سے چاہے منع کر دے۔ اسلام کی دعوت یہ ہے کہ اللہ کو اس حیثیت سے مانو کہ ہم اس کے سوا کسی کے بندے نہیں ہیں اور اس کے قانون کے خلاف کسی کو ہم پر حکم چلانے کا حق نہیں ہے۔ اس حیثیت سے مانو کہ ہمارا سر اس کے سوا کسی کے سامنے جھکنے کے لیے نہیں بنا ہے۔ اس حیثیت سے مانو کہ ہماری تقدیر بنانے اور بگاڑنے والا صرف وہی ہے ۔ اس حیثیت سے مانو کہ ہمارا جینا اور مرنا بالکل اس کے اختیار میں ہے۔ جس وقت چاہے ہمیں موت دے سکتا ہے اور جس وقت تک چاہے زندہ رکھ سکتا ہے۔ اس کی طرف سے موت ائے تو دنیا کی کوئی طاقت بچا لینے والی نہیں اور وہ زندگی عطا کرے تو دنیا کی کوئی طاقت ہلاک کر دینے والی نہیں، یہ ہے اسلام کا تصور خدا۔ 


اس تصور کے مطابق زمین سے لے کر اسمانوں تک ساری کائنات خدا کی تابع فرمان ہے اور انسان جو اس کائنات میں رہتا ہے، اس کا بھی یہی کام ہے کہ خدا ہی کا تابع فرمان بن کر رہے۔ اگر وہ خود مختار بنے یا خدا کے سوا کسی اور کی اطاعت اختیار کرے تو اس کی زندگی کا نظام پورے نظام کائنات کے خلاف ہو جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ ساری کائنات خدا کے حکم کے تحت چل رہی ہے۔ یہ ایک امر واقعی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ اب اگر ہم خدا کے سوا کسی اور کے حکم کے تحت چل رہے ہوں، یا اپنی مرضی کے مختار بن کر جدھر جی چاہے چل رہے ہوں،  تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہماری زندگی کی گاڑی پوری کائنات کی گاڑی کے خلاف سمت میں چل رہی ہے۔ ایک مستقل تصادم ہے جو ہمارے اور نظام کائنات کے درمیان ہو رہا ہے۔ 


ایک اور پہلو سے دیکھیے، اس تصور کے مطابق انسان کے لیے صحیح طریق حیات Way of life صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے، کیونکہ وہ مخلوق ہے اور اللہ اس کا خالق ہے۔ مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس کا خود مختار بن جانا بھی غلط ہے اور اپنے خالق کے سوا دوسروں کی بندگی کرنا بھی غلط۔ ان دونوں راستوں میں سے جو راستہ بھی وہ اختیار کرے گا وہ حقیقت سے متصادم ہوگا اور حقیقت سے ٹکرانے کا نقصان خود ٹکرانے والے ہی کو پہنچتا ہے۔ حقیقت کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا۔ 


بندگیِ رب کی دعوت 


رسول اللہﷺ کی دعوت یہ ہے کہ اس تصادم کو ختم کرو۔ تمہاری زندگی کا قانون اور ضابطہ بھی وہی ہونا چاہیے جو پوری کائنات کا ہے۔ تمہارا حاکم بھی وہی ہونا چاہیے جو ساری کائنات کا ہے۔ تم نہ خود قانون ساز ہو اور نہ کسی دوسرے کا یہ حق تسلیم کرو کہ وہ خدا کی زمین میں خدا کے بندوں پر اپنا قانون چلائے۔ قانون برحق صرف خداوند عالم کا قانون ہے۔ باقی سب قوانین باطل ہیں۔ 



اطاعت رسولؐ کی دعوت 


یہاں پہنچ کر ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کی دعوت کا دوسرا نکتہ اتا ہے اور وہ اپ کا یہ دو ٹوک بیان ہے کہ میں اللہ تعالی کا نبی ہوں، اور نوع انسانی کے لیے اس نے اپنا قانون میرے ذریعے سے بھیجا ہے۔ میں خود بھی اس قانون کا پابند ہوں۔ خود مجھے بھی اس میں تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ میں اتباع کرنے پر مامور ہوں۔ اپنی طرف سے کوئی نئی چیز اختراع کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔ یہ قران مجید وہ قانون ہے جو مجھ پر خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اور میری سنت وہ قانون ہے جو خدا کے حکم و ارشاد کی بنا پر میں جاری کرتا ہوں۔ اس قانون کے اگے سر اطاعت جھکا دینے والا سب سے پہلے میں ہوں (انا اول المسلمین ) اس کے بعد تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ہر دوسرے قانون کی پیروی چھوڑ کر اس قانون کی پیروی کریں۔ 


اللہ کے بعد اطاعت کا مستحق اللہ کا رسول ہے 


کسی کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ رسول اللہﷺ خود اپنی سنت کی اطاعت و پیروی کیسے کر سکتے تھے جبکہ وہ اپ کا اپنا ہی قول یا فعل ہوتا تھا۔ اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ قران جس طرح خدا کی طرف سے تھا اسی طرح رسول ہونے کی حیثیت سے جو حکم اپ دیتے، یا جس کام سے اپ منع فرماتے ہیں، یا جس طریقے کو اپ مقرر کرتے تھے، وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا۔ اسی کا نام سنت رسول ہے اور اس کی پیروی اپ خود بھی اسی طرح کرتے تھے جس طرح سب اہل ایمان کے لیے اس کی پیروی لازم تھی۔ یہ بات ایسے موقع پر پوری طرح واضح ہو جاتی تھی، جب صحابہ کرام کسی معاملے میں اپ سے پوچھتے تھے کہ یا رسول اللہؐ؟ کیا اپ یہ اللہ کے حکم سے فرما رہے ہیں یا یہ اپ کی اپنی رائے ہے؟ اور اپ جواب دیتے تھے کہ اللہ کا حکم نہیں ہے بلکہ میری رائے ہے۔ ایسے مواقع پر صحابہؓ حضورؐ کی رائے سے اختلاف کر کے اپنی تجویز پیش کرتے تھےاور آپ اپنی رائے چھوڑ کر ان کی تجویز قبول فرمالیتے تھے۔ اسی طرح یہ بات ان مواقع پر کھل جاتی تھی جب اپ کسی معاملے میں صحابہؓ سے مشورہ طلب فرماتے تھے۔ یہ مشاورت خود اس امر کی دلیل ہوتی تھی کہ اس معاملے میں خدا کی طرف سے کوئی حکم نہیں ایا ہے۔ کیونکہ خدا کا حکم ہوتا تو اس میں مشاورت کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ ایسے مواقع رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد میں بارہا پیش ائے جن کی تفصیلات احادیث میں ہم کو ملتی ہیں۔ بلکہ صحابہ کرام کا تو یہ بیان ہے کہ ہم نے حضورؐ سے زیادہ مشاورت کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ اس پر اپ غور کریں تو اپ کو محسوس ہوگا کہ یہ بھی حضورؐ کی سنت ہی تھی کہ جس معاملے میں اللہ کا حکم نہ ہو اس میں مشورہ کیا جائے اور کوئی دوسرا حاکم تو درکنار، اللہ کا رسول تک اپنی ذاتی رائے کو لوگوں کے لیے فرمان واجب الاذعان نہ قرار دے۔ اس طرح رسول اللہﷺ نے امت کو شورہ کے طریقے سے کام کرنے کی ترتیب دی اور لوگوں کو یہ سکھایا کہ جس معاملے میں حکم الہی ہو اس میں بےچوں چراں اطاعت کرو، اور جہاں حکم الہی نہ ہو وہاں ازادی اظہار رائے کا حق بے خوف و خطر استعمال کرو۔ 


ازادی کا حقیقی چارٹر 



یہ نوع انسانی کے لیے ازادی کا وہ چارٹر ہے جو دین حق کے سوا دنیا میں کسی نے اس کو نہیں دیا۔ اللہ کے بندے صرف اللہ ہی کے بندے ہوں اور کسی کے بندے نہ ہوں۔ حتی کہ اللہ کے رسول کے بندے بھی نہ ہوں۔ اس نے انسان کو ایک خدا کے سوا ہر دوسرے کی بندگی سے ازاد کر دیا۔ اور انسان پر سے انسان کی خدائی ہمیشہ کے لیے ختم کر دی۔ اس کے ساتھ ایک عظیم ترین نعمت جو اس پیغام نے انسان کو عطا کی، وہ ایک ایسے قانون کی بالاتری ہے جسے توڑنے مڑوڑنے اور رد و بدل کا تختہ مشق بنانے کا اختیار کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر یا جمہوری مجلس قانون ساز یا اسلام قبول کرنے والی کسی قوم کو حاصل نہیں ہے۔ یہ قانون خیر و شرک کی مستقل قدریںPermanent Values انسان کو دیتا ہے جنہیں بدل کر کبھی کوئی خیر کو شر اور شر کو خیر نہیں بنا سکتا.


آخرت کا عقیدہ

تیسری بات جو رسول اللہﷺ نے بندگان خدا کو بتائی وہ یہ ہے کہ تم خدا کے سامنے جوابدہ ہو۔ تم اس دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیے گئے ہو کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتے رہو، جس کھیت میں چاہے چرتے پھرو، اور کوئی تمہیں پوچھنے والا نہ ہو بلکہ تم اپنے ایک ایک فعل، ایک ایک قول، اور اپنی پوری اختیاری زندگی کے اعمال کا حساب اپنے خالق و معبود کو دینے والے ہو۔ مرنے کے بعد تمہیں اٹھنا پڑے گا اور اپنے رب کے سامنے باز پرس کے لیے پیش ہونا پڑے گا۔ 


یہ ایک ایسی زبردست اخلاقی طاقت ہے جو اگر انسان کے ضمیر میں جاگزین ہو جائے تو اس کا حال ایسا ہوگا جیسے اس کے ساتھ ہر وقت ایک چوکیدار لگا ہوا ہے جو برائی کے ہر ارادے پر اسے ٹوکتا اور ہر اقدام پر اسے روکتا ہے۔ باہر کوئی گرفت کرنے والی پولیس اور سزا دینے والی حکومت موجود ہو یا نہ ہو، اس کے اندر ایک محتصب ایسا بیٹھا رہے گا جس کی پکڑ کے خوف سے وہ کبھی خلوت میں، یا جنگل میں، یا اندھیرے میں، یا کسی سنسان جگہ میں بھی خدا کی نافرمانی نہ کر سکے گا۔ اس سے بڑھ کر انسان کی اخلاقی اصلاح اور اس کے اندر ایک مستحکم کردار پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے دوسرے جتنے ذرائع سے بھی اپ اخلاق سنوارنے کی کوشش کریں گے اس سے اگے نہ بڑھ سکیں گے کہ بھلائی دنیا میں فائدہ مند اور برائی نقصان دہ ہے ۔👍🏻 اور یہ کہ ایمانداری ایک اچھی پالیسی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پالیسی کے اعتبار سے اگر برائی اور بے ایمانی مفید ہو اور اس سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو اسے بلا تکلف کر ڈالا جائے۔👍🏻 اسی نقطہ نظر کا تو یہ نتیجہ ہے کہ جو لوگ اپنی انفرادی زندگی میں اچھا رویہ رکھتے ہیں وہی اپنے قومی کردار میں انتہا درجے کے بے ایمان، دغا باز، لٹیرے، اور ظالم و جابر بن جاتے ہیں۔ بلکہ انفرادی زندگی میں بھی وہ اگر بعض معاملات میں اچھے ہوتے ہیں تو بعض دوسرے معاملات میں بہت برے ہوتے ہیں۔ اپ دیکھیں گے کہ ایک طرف وہ کاروبار میں کھرے اور برتاؤ میں خوش اخلاق ہیں تو دوسری طرف شرابی، زانی، جواری، اور سخت بدکار و سیاہ کار ہیں۔ ان کا مقولہ یہ ہے کہ ادمی کی پبلک زندگی اور چیز ہے اور پرائیویٹ زندگی اور۔ نجی زندگی کے کسی عیب پر کوئی ٹوکے تو ان کا گھڑا گھڑایا جواب یہ ہوتا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ 


اس کے بالکل برعکس اخرت کا عقیدہ ہے جو کہتا ہے کہ برائی ہر حال میں برائی ہے خواہ دنیا میں وہ مفید ہو یا نقصان دہ۔ جو شخص خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس رکھتا ہو اس کی زندگی میں پبلک اور پرائیویٹ کے دو شعبے الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ وہ ایمانداری اختیار کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ یہ اچھی پالیسی ہے، بلکہ اس کے عین وجود میں ایمانداری شامل ہوتی ہے اور وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ اس کا کام کبھی بے ایمانی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا عقیدہ اسے یہ سکھاتا ہے کہ تم اگر بے ایمانی کرو گے تو جانوروں کی سطح سے بھی نیچے جا پڑو گے، جیسا کہ قران مجید میں ارشاد ہوا ہےکہ۔۔۔۔"ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا پھر اسے اوندھا کر سب نیچے سے نیچے کر دیا۔"


اسی طرح رسول اللہﷺ کی رہنمائی سے انسان کو صرف ایک مستقل اخلاق اقدار رکھنے والا ناقابل تبدیل قانون ہی نہیں ملا، بلکہ انفرادی اور قومی اخلاق و کردار کے لیے ایک ایسی بنیاد بھی مل گئی جو کبھی متزلزل ہونے والی نہیں ہے، جو اس بات کی محتاج نہیں ہے کہ کوئی حکومت موجود ہو، کوئی پولیس موجود ہو، کوئی عدالت موجود ہو تو اپ سیدھے راستے پر چلیں، ورنہ مجرم بن کر رہیں۔ 


رہبانیت کے بجائے دنیا داری میں اخلاق کا استعمال 


رسول اللہﷺ کی دعوت ایک اور اہم سبق ہمیں دیتی ہے وہ اور وہ یہ ہے کہ اخلاق راہبوں کے گوش عضلت کے لیے نہیں ہے درویشوں کی خانقاہوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کی زندگی کے ہر شعبے میں برتنے کے لیے ہے۔ جس روحانی اور اخلاقی بلندی کو دنیا فقیروں اور درویشوں میں تلاش کرتی تھی، رسول اللہﷺ اسے حکومت کی مسند پر اور عدالت کی کرسی پر اٹھا لائے۔ اپ نے تجارت کے کاروبار میں خدا ترسی اور دیانت سے کام لینا سکھایا، اپ نے پولیس اور فوج کے سپاہیوں کو تقوی اور پرہیزگاری کا سبق دیا، اپ نے انسان کی اس غلط فہمی کو دور کیا کہ خدا کا ولی وہ ہوتا ہے جو تاریک الدنیا ہو کر بس اللہ اللہ کرتا رہے۔ آپ نے بتایا کہ ولایت اس کا نام نہی،  بلکہ اصل ولایت یہ ہے کہ آدمی ایک حاکم، ایک سپہ سالار،  ایک تھانیدار،  ایک تاجر و صنعت کار اور دوسری تمام ممکن حیثیتوں سے ایک پورا دنیادار بن کر بھی ہر اس موقع پر اپنا خدا ترس اور دیانت دار ہونا ثابت کردےجہاں اس کے ایمان کو آزمائش سے سابقہ پیش آئے۔  اس طرح آپ اخلاق و روحانیت کو رہبانیت کے گوشوں سے نکال کر معیشت و معاشرت،  سیاست اور صلح و جنگ کے میدانوں میں لے آئے اور یہاں پاکیزہ اخلاق کی حکمرانی قائم کی۔  


حضورؐ کی ہدایت کا فیض 

یہ اسی رہنمائی کا فیض تھا کہ اپنی نبوت کے اغاز میں جن لوگوں کو اپ نے ڈاکو پایا تھا ان کو اس حالت میں چھوڑا کہ وہ امانت دار اور خلق خدا کی جان و مال اور ابرو کے محافظ بن چکے تھے۔ جن لوگوں کو حق مارنے والا پایا تھا، انہیں حق ادا کرنے والا، حقوق کی حفاظت کرنے اور حقوق دلوانے والا بنا کر چھوڑا۔ اپ سے پہلے دنیا ان حاکموں سے واقف تھی جو ظلم و جور سے رعیت کو دبا کر رکھتے تھے اور اونچے اونچے محلوں میں رہ کر اپنی خدائی کا سکہ جماعتیں تھے۔ اپ نے اسی دنیا کو ایسے حاکموں سے روشناس کرایا جو بازاروں میں عام انسانوں کی طرح چلتے تھے اور عدل و انصاف سے دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ اپ سے پہلے دنیا ان فوجوں سے واقف تھی جو کسی ملک میں گھستی تھیں تو ہر طرف قتل عام برپا کرتی۔ بستیوں کو اگ لگاتی اور مفتوح قوم کی عورتوں کو بے ابرو کرتی پھرتی تھیں۔ اپ نے اسی دنیا کو ایسی فوجوں سے متعارف کرایا جو کسی شہر میں فاتحانہ داخل ہوتیں تو دشمن کی فوج کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرتی تھیں اور فتح کیے ہوئے شہر سے اگر پسپا ہوتیں تو اہل شہر سے اصول کیے ہوئے ٹیکس تک انہیں واپس کر دیتی تھیں۔ انسانی تاریخ ملکوں اور شہروں کی فتح کے قصوں سے بھری پڑی ہے مگر فتح مکہ کی کوئی نظیر اپ کو تاریخ میں نہ ملے گی۔ جس شہر کے لوگوں نے تیرہ برس تک رسول اللہﷺ پر ظلم و ستم ڈھایا تھا اسی شہر میں اپ کا فاتحانہ داخلہ اس شان سے ہوا تھا کہ اپ کا سر خدا کے اگے جھکا جارہا تھا، اپ کی پیشانی اونٹ کے کجاوے سے لگی جا رہی تھی۔ اور اپ کے طرز عمل میں غرور تکبر کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہی لوگ جو 13 برس تک اپ پر ظلم و ستم کرتے رہے تھے، جنہوں نے اپ کو ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ اور جو ہجرت کے بعد بھی اٹھ برس تک اپ سے برسر جنگ رہے تھے، جب مغلوب ہو کر اپ کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے اپ سے رحم و کرم کی التجا کی اور اپ نے انتقام لینے کے بجائے فرمایا کہ "اج تم پر کوئی گرفت نہیں جاؤ تم چھوڑ دیے گئے۔" 


رسول اللہﷺ کہ اس نمونے کا جو اثر اپ کی امت پر پڑا ہے اس کا اگر کوئی شخص اندازہ کرنا چاہے تو تاریخ میں خود دیکھ لے کہ مسلمان جب اسپین میں داخل ہوئے تھے تو ان کا رویہ کیا تھا، اور جب عیسائیوں نے ان پر فتح پائی تھی تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ صلح بھی لڑائیوں کے زمانے میں جب عیسائی بیت المقدس میں داخل ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور مسلمانوں نے جب بیت المقدس کو ان سے واپس لیا تو عیسائیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ کیا تھا۔ 

حضرات! رسول اکرمﷺ کی سیرت ایک بحر ذخار ہے، جس کا احاطہ کرنا کسی بڑے کتاب میں بھی ممکن نہی ہے، کجا کہ ایک تقریر میں کیا جاسکے۔ تاہم میں نے زیادہ سے زیادہ ممکن اختصار کے ساتھ اس کے چند نمایاں پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس واحد ذریعہ ہدایت سے رہ نمائی حاصل کریں۔ 




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.